Rumination Psychology: Zyada Sochna Kaise Roka Jaye?
لاش ہمارے سامنے پڑی تھی، شناخت سے بالکل پرے۔ اس کی وردی پھٹی ہوئی تھی، ہاتھ کٹے ہوئے، اور چہرہ اس حد تک زخمی تھا کہ ماں بھی اپنے بیٹے کو پہچان نہ پاتی۔ میری ماں زمین پر گر گئی، شدتِ غم سے روتی ہوئی، اس بے جان جسم کو سینے سے لگائے جو کبھی اس کا جیتا جاگتا بیٹا تھا۔ میرے گھر والوں کی چیخیں فضا میں گونج رہی تھیں، اور میں ساکت کھڑی تھی، میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا جب میں نے اپنے بھائی کو واپس آتے دیکھا — ایک فخر سے سرشار سپاہی کے طور پر نہیں، بلکہ ایک ٹکڑوں میں بٹے ہوئے شہید کے طور پر۔ اُس لمحے کا بوجھ اتنا بھاری تھا کہ میں ٹوٹ گئی، اور اتنا روئی کہ سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔
Mere bhae ka safar میرے بھائی کا سفر
میرا بھائی صرف اٹھارہ سال کا تھا جب اُس نے فوج میں شمولیت اختیار کی۔ زندگی سے بھرپور، جذبے اور جوش سے لبریز، اور شہادت کے خواب کو دل میں سجائے ہوئے۔ وہ اپنی وردی پر بے حد فخر کرتا تھا اور وطن کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھا۔ اُس کی پہلی تعیناتی وزیرستان میں ہوئی — وہی علاقہ جو اُس وقت مکمل طور پر دہشت گردوں کے قبضے میں تھا۔ میرے ذہن میں دو باتیں مسلسل گونجتی رہتی تھیں: وزیرستان کا خطرناک علاقہ ہونا، اور میرے بھائی کی یہ شدید خواہش کہ وہ شہید ہو۔ ان دونوں خیالوں نے میرے اندر ایک بے چینی پیدا کر دی، میرا ذہن اُن خوفناک مناظر کو گھڑنے لگا جو حقیقت میں کبھی پیش ہی نہیں آئے تھے۔
Jub Damagh Dushman Bun Jae جب دماغ دشمن بن جائے
لیکن سچ یہ ہے کہ جو منظر میں نے بیان کیا، وہ حقیقت میں کبھی موجود ہی نہیں تھا۔ وہ صرف میرا دماغ تھا جو منفی سوچ کے ذریعے اسے تخلیق کر رہا تھا۔ پھر بھی میں نے اُسے اتنی شدت سے محسوس کیا کہ وہ میری حقیقت بن گیا، اور میں کمبل میں چھپ کر گھنٹوں روتی رہی، جب سب سو رہے تھے۔ یہی انسانی دماغ کی طاقت ہے — یہ غیر موجود کہانیاں بنا سکتا ہے، اور پھر ہمیں وہ درد بھی محسوس کرا دیتا ہے جیسے وہ واقعی سچ ہوں۔ یہ جنگ باہر نہیں ہوتی، یہ ہمارے اندر ہوتی ہے۔ یہ اندرونی لڑائی، یہ کشمکش جو حقیقت اور دماغ کی تخلیق کے درمیان چلتی ہے، اُسے ہم خیالات کی جگالی یا رومینیشن کہتے ہیں۔
Rumination Kia Hain? رومینیشن کیا ہے؟
جی ہاں، لفظ “رومینیشن” دراصل گائے اور کچھ دیگر جانوروں سے آیا ہے جو کھانا چبا کر نگلتے ہیں، پھر اُسے دوبارہ منہ میں لا کر بار بار چباتے ہیں۔
نفسیات میں یہ لفظ بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے گائے ایک ہی لقمہ بار بار چباتی ہے، ویسے ہی ہمارا دماغ ایک ہی خیال — خاص طور پر منفی — کو بار بار دہراتا رہتا ہے، بغیر کسی نتیجے پر پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی دکھ بھری یاد یا فکر کو بار بار سوچتے رہتے ہیں، تو نفسیات میں اسے رومینیشن کہا جاتا ہے۔
Rumination Kyoun Hoti Hain? رومینیشن کیوں ہوتی ہے؟
رومینیشن اس لیے ہوتی ہے کیونکہ ہمارا دماغ فطری طور پر مسائل حل کرنے کے لیے بنا ہے۔ جب بھی کچھ غلط محسوس ہوتا ہے — جیسے کوئی غلطی، جھگڑا، یا غیر یقینی مستقبل — تو دماغ اُس واقعے کو بار بار دہراتا ہے تاکہ کسی حل تک پہنچ سکے۔ مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حل ملنے کے بجائے دماغ ایک ہی خیال کے چکر میں پھنس جاتا ہے، وہی پریشان کن سوچ بار بار دہراتا ہے، بغیر کسی نتیجے کے۔
ایک بڑی وجہ جذباتی درد بھی ہے۔ جب ہم خوف، پچھتاوے یا بے چینی کا شکار ہوتے ہیں، تو دماغ ان احساسات کو سمجھنے کے لیے کہانیاں بناتا ہے یا ماضی کے واقعات کو دہرانے لگتا ہے۔ کچھ لوگوں میں کمال پسندی، خود پر اعتماد کی کمی، یا مسلسل دباؤ بھی رومینیشن کی بڑی وجوہات بنتے ہیں۔ حقیقت میں، اس طرح کا بار بار سوچنا دماغ کا ہمیں تحفظ دینے کا طریقہ ہوتا ہے، مگر فائدہ دینے کے بجائے یہ درد کو اور گہرا کر دیتا ہے۔
Rumination ki Aam Misalae رومینیشن کی عام مثالیں
جھگڑے کے بعد
سوچئے کہ آپ کا کسی دوست یا گھر والے سے جھگڑا ہو گیا۔ اُس وقت آپ ویسے جواب نہیں دے پائے جیسے دینا چاہتے تھے۔ بعد میں جب آپ اکیلے ہوتے ہیں تو دماغ وہی منظر بار بار دہراتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں، “مجھے یہ کہنا چاہئے تھا… اگر میں ایسے جواب دیتا/دیتی تو بہتر ہوتا۔” اگرچہ جھگڑا ختم ہو چکا ہوتا ہے، مگر آپ کا دماغ آپ کو اسی چکر میں پھنسا دیتا ہے۔
فیصلہ لینے سے پہلے
کبھی جب ہمیں کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا ہے — جیسے کیریئر کا انتخاب، نوکری بدلنا، یا کوئی چیز خریدنا — تو دماغ سکون نہیں لینے دیتا۔ وہ بار بار ممکنہ نتائج دکھاتا ہے، خاص طور پر برے نتائج, نتیجہ یہ کہ آگے بڑھنے کے بجائے ہم وہیں رک جاتے ہیں یہ سوچتے ہوئے، اگر میں ناکام ہو گئی تو؟ اگر حالات بگڑ گئے تو؟
ماضی کی غلطیوں کو یاد کرنا
اکثر ہمارا ذہن ہمیں اُس غلطی کی طرف واپس لے جاتا ہے جو ہم نے بہت عرصہ پہلے کی ہوتی ہے۔ چاہے باقی سب لوگ اُسے بھول چکے ہوں، ہم خود کو ذہنی طور پر سزا دیتے رہتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ اگر اُس وقت ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا ہوتا تو سب کچھ مختلف ہو سکتا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی بدلا نہیں جا سکتا۔
مستقبل کا خوف
رومینیشن اُس وقت بھی ہوتی ہے جب ہم اُن مسائل کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں جو ابھی ہوئے ہی نہیں۔ امتحان سے پہلے ہمیں خود کو ناکام ہوتا ہوا نظر آتا ہے، یا جب کوئی پیارا سفر پر جاتا ہے تو دماغ حادثوں کے منظر بنانے لگتا ہے۔ یہ خوف اکثر کبھی سچ نہیں ہوتے، لیکن جو درد وہ پیدا کرتے ہیں، وہ بالکل حقیقی محسوس ہوتا ہے۔
خود کا دوسروں سے موازنہ کرنا
آج کے دور میں دوسروں سے اپنا موازنہ کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ چاہے وہ کلاس فیلوز ہوں، ساتھی ملازم ہوں یا سوشل میڈیا کے لوگ، دماغ سوال کرنے لگتا ہے: “میں اُن جیسی کامیاب کیوں نہیں؟ میں پیچھے کیوں ہوں؟” یہ خیالات بار بار لوٹ کر آتے ہیں اور صرف خود سے نفرت اور مایوسی کو بڑھاتے ہیں۔
چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر سوچنا
کبھی کبھار بات کسی بڑی غلطی کی نہیں ہوتی۔ شاید آپ نے میٹنگ میں کوئی بات غلط کہہ دی ہو، یا لوگوں کے سامنے تھوڑا غیر مطمئن انداز میں پیش آئی ہوں۔ باقی سب تو اُس لمحے کو بھول چکے ہوتے ہیں، لیکن آپ کا دماغ اُسی ایک لمحے کو بار بار دہراتا ہے، جیسے کوئی ٹوٹی ہوئی ریکارڈنگ، اور ہر بار وہی شرمندگی پھر سے محسوس ہوتی ہے۔
آپ اس جنگ میں اکیلے نہیں ہیں
جب میں یہ مثالیں لکھ رہی تھی، تو میں خود کو ہر ایک منظر میں پاتی رہی۔ یہ صرف عام مثالیں نہیں ہیں — میں نے اِنہیں اپنی زندگی میں بارہا جیا ہے، اپنے ذہن کے اندر۔ شاید آپ نے بھی۔ شاید آپ نے بھی راتوں کو اکیلے روتے ہوئے کسی جھگڑے کو بار بار دہرایا ہو، یا اُس مستقبل کا تصور کیا ہو جو ابھی آیا ہی نہیں۔ اگر آپ یہ الفاظ پڑھ رہے ہیں اور محسوس کر رہے ہیں کہ میں آپ کی اپنی کہانی بیان کر رہی ہوں، تو جان لیجیے — آپ اکیلے نہیں ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے ذہن میں یہ خاموش جنگیں لڑ رہے ہیں، اور یہ درد باہر کی دنیا کے کسی بھی دکھ کی طرح سچا لگتا ہے۔ ہم سب ایک ہی سوال میں الجھے ہیں — آخر ہم اوور تھنکنگ کیسے روکیں؟
Rumination K Asraat رومینیشن کے اثرات
رومینیشن بظاہر صرف “سوچتے رہنا” لگتی ہے، مگر حقیقت میں یہ ذہن اور جسم دونوں پر بھاری اثر ڈالتی ہے۔ جب ہم بار بار ایک ہی تکلیف دہ خیال دہراتے ہیں، تو ہم وہی درد بارہا محسوس کرتے ہیں — جیسے زخم کبھی بھرتا ہی نہیں۔ یہ ہماری توانائی نچوڑ لیتی ہے، ذہنی سکون چھین لیتی ہے، اور ہمیں حال میں جینے کے بجائے ماضی کے قیدی یا مستقبل کے خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔
ذہنی طور پر رومینیشن دباؤ، بے چینی اور افسردگی کو بڑھاتی ہے۔ یہ خود پر شک پیدا کرتی ہے، اعتماد کو کمزور کرتی ہے، اور چھوٹی باتوں کو بھی ناممکن مسئلہ بنا دیتی ہے۔ جسمانی طور پر یہ نیند میں خلل ڈالتی ہے، جسم کو تھکا دیتی ہے، اور ایسا احساس پیدا کرتی ہے جیسے دن بھر کچھ نہ کرنے کے باوجود مکمل تھکن چھا گئی ہو۔ سماجی طور پر یہ آپ کو دوسروں سے دور کر دیتی ہے — آپ لوگوں سے ملنا کم کر دیتے ہیں، بات چیت سے کترانے لگتے ہیں، کیونکہ دماغ اپنے اندر کی جنگ لڑنے میں مصروف ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ رومینیشن صرف خیالات تک محدود نہیں رہتی، یہ آہستہ آہستہ زندگی کے ہر گوشے کو چھو لیتی ہے۔
جب بھی میں خود اس رومینیشن کے چکر میں پھنس جاتی ہوں، تو اپنے جسم میں واضح تبدیلی محسوس کرتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے میری جسمانی طاقت مہینوں پیچھے چلی گئی ہو، جیسے میں ایک قدم آگے بڑھتی ہوں مگر ذہنی بوجھ مجھے تین قدم پیچھے کھینچ لیتا ہے۔ میرے خیالات کا وزن صرف ذہن تک محدود نہیں رہتا، وہ میرے جسم کو بھی کمزور کر دیتا ہے — اور میں اکثر بلاوجہ غصے میں رہنے لگتی ہوں۔
Kiya Rumination Koi Bemari hy? کیا رومینیشن کوئی بیماری ہے؟
رومینیشن بذاتِ خود کوئی بیماری نہیں، بلکہ ذہن کی ایک عادت ہے۔ جب دماغ کسی مسئلے کو حل کرنے یا جذبات کو سمجھنے کی بہت زیادہ کوشش کرتا ہے تو وہ اسی سوچ کے دائرے میں پھنس جاتا ہے۔ تقریباً ہر انسان کو کبھی نہ کبھی یہ کیفیت محسوس ہوتی ہے، اس لیے اگر یہ کبھی کبھار ہو تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر رومینیشن بہت زیادہ ہونے لگے، نیند چھین لے، یا آپ کو مستقل خوف اور اداسی میں رکھے، تو یہ ایک اشارہ ہے کہ آپ کو اس پر توجہ دینی چاہیے اور اسے قابو کرنے کے لیے قدم اٹھانے چاہییں
Zyada Sochnae Ko Kese Roka Jae? اوور تھنکنگ یا رومینیشن کو کیسے روکا جائے؟
رومینیشن ایک جال کی طرح محسوس ہو سکتی ہے، لیکن خوشخبری یہ ہے کہ اس سے نکلنا ممکن ہے۔ یہ ایک مشق ہے، اور چھوٹے چھوٹے قدم بھی بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ یہاں کچھ آسان طریقے ہیں جن سے آپ اپنے دماغ کو بار بار ایک ہی تکلیف دہ خیالات کے چکر میں پڑنے سے روک سکتے ہیں۔
اپنے خیالات کو پہچانیے — سب سے پہلا قدم آگاہی ہے۔ جب آپ محسوس کریں کہ دماغ پھر وہی منظر دہرا رہا ہے، تو ایک لمحے کو رکیں اور خود سے کہیں: یہ صرف میرا ذہن ہے، حقیقت نہیں۔
توجہ کا رخ بدلیں — کچھ ایسا کیجیے جو آپ کی توجہ حال میں لے آئے، جیسے چہل قدمی، کسی دوست سے بات کرنا، یا گھر کا کوئی چھوٹا سا کام کرنا۔
لکھ ڈالیں — اپنی سوچوں کو کاغذ پر لکھنا دماغ سے بوجھ ہٹانے میں مدد دیتا ہے۔ جب خیالات لکھ دیے جاتے ہیں، تو دماغ کو انہیں بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں رہتی۔
ماینڈ فلنیس کی مشق کریں — سادہ سانس لینے کی مشقیں یا مراقبہ دماغ کو پرسکون کرتے ہیں اور “کیا ہوگا” سے نکال کر “ابھی” میں واپس لاتے ہیں۔
کہانی کا زاویہ بدلیں — یہ پوچھنے کے بجائے کہ “یہ میرے ساتھ کیوں ہوا؟” خود سے پوچھیے “میں اس سے کیا سیکھ سکتی ہوں؟ اگلی بار کیا مختلف کر سکتی ہوں؟” جذباتی اور ذہنی طور پر مضبوط کیسے بنیں؟ یہی تبدیلی آپ کو دکھ سے ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔
اوور تھنکنگ کے محرکات کم کریں — سوشل میڈیا پر کم وقت گزاریں، تنہائی کو کم کریں، اور پریشان کن خبریں یا گفتگو بار بار نہ دہرائیں۔
بات شیئر کریں — کسی قابلِ اعتماد شخص سے دل کی بات کرنا بوجھ ہلکا کرتا ہے۔ بعض اوقات بات زبان سے نکالنا یہ احساس دلاتا ہے کہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں جتنا دماغ نے بنا رکھا ہے۔
ماہرانہ مدد حاصل کریں — اگر رومینیشن قابو سے باہر محسوس ہو یا آپ کی صحت پر اثر ڈالنے لگے، تو کسی معالج یا ماہرِ نفسیات سے مشورہ لینا بہتر ہے۔ وہ آپ کو اس کیفیت سے نکلنے کے مؤثر طریقے سکھا سکتے ہیں۔
Rumination Ko Kabu Main Rakna رومینیشن کو قابو میں رکھنا
دماغ کو ابتدا میں سنبھالنا ہمیشہ آسان ہوتا ہے، بنسبت اُس وقت کے جب وہ مکمل طور پر سوچوں کے دائرے میں پھنس جائے۔ جب دماغ ایک ہی خیال کو بار بار دہرانے لگے تو اُسے قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے بہترین حکمتِ عملی یہ ہے کہ خود کو شروع میں ہی روک لیا جائے — جب پہلا خیال آئے، اُسی وقت اُسے سنبھالنے کی کوشش کیجیے۔ اگر وہ لمحہ گزر جائے اور دماغ مکمل طور پر اوور تھنکنگ میں الجھ جائے، تو پھر اس دائرے کو توڑنا کہیں زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
Rumination ko Foran Roknae k Iqdemat رومینیشن کو فوراً روکنے کے اقدامات
کبھی کبھار دماغ اتنا الجھ جاتا ہے کہ ہمیں فوری ایکشن لینا پڑتا ہے تاکہ ہم خود کو اُس چکر سے نکال سکیں۔ یہاں چند تیز اور مؤثر طریقے ہیں جو منفی خیالات کے بہاؤ کو روکنے میں مدد دیتے ہیں۔
جسمانی جھٹکا دیں — ناک کے کسی حصے کو ہلکا سا دبائیں تاکہ چھینک آنے کا احساس پیدا ہو، یہ دماغ کو اچانک توجہ بدلنے پر مجبور کرتا ہے۔
ٹھنڈا پانی چہرے پر چھڑکیں — اچانک ٹھنڈک کا احساس دماغ کو حال میں واپس لے آتا ہے۔
تالی بجائیں یا انگلی چٹخائیں — ایک تیز آواز خیالات کے تسلسل کو توڑ دیتی ہے اور دماغ کو ایک لمحے کے لیے نیا رخ دیتی ہے۔
پچاس سے الٹی گنتی شروع کریں — یہ سادہ ذہنی مشق دماغ کو ایک نئی سمت میں لگا دیتی ہے اور سوچوں کے بہاؤ کو توڑ دیتی ہے۔
اٹھیں اور حرکت کریں صرف ایک ہلکی سی اسٹریچنگ، تھوڑی چہل قدمی یا ہاتھوں کو ہلانا بھی آپ کی ذہنی کیفیت بدلنے میں مدد دے سکتا ہے۔۔
یہ طریقے مستقل حل نہیں، مگر جب خیالات کا بوجھ ناقابلِ برداشت لگے تو یہ ایک ہنگامی راستہ ثابت ہوتے ہیں، جو آپ کو لمحاتی طور پر اُس دائرے سے نکال سکتے ہیں۔
میری اپنی رومینیشن سے حاصل ہونے والے سبق
میری رومینیشن کا انداز یہ ہے کہ میں اُن لوگوں سے اپنے ذہن میں بحث کرتی ہوں جن سے میں حقیقت میں بات نہیں کر سکتی۔ جب میں کسی سے براہِ راست کچھ نہیں کہہ پاتی یا اُن سے جھگڑ نہیں سکتی، تو میں اپنے ذہن میں اُن سے لڑائی کرنے لگتی ہوں۔ میرے ہاتھ کسی کام میں مصروف ہوتے ہیں، مگر دماغ میں اُن سے مکالمہ جاری رہتا ہے۔ ان ہی لمحوں میں اگر میرا بیٹا یا کوئی اور مجھے پکار لے، تو میں فوراً غصے میں جواب دیتی ہوں —کیا ہے؟ بولو نا
میرے آس پاس کے لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ میرے ذہن کے اندر کیا طوفان چل رہا ہے۔
ایک دن میں نماز پڑھ رہی تھی، مگر نماز کے دوران بھی دماغ میں وہی خیالات گھوم رہے تھے۔ میں غصے میں تھی، اور اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ایک لمحے کے لیے میرا بلڈ پریشر ۱۸۰ تک پہنچ گیا ہو، اور اگلے ہی لمحے واپس نیچے گر گیا۔ جسم میں ایک ہلکا سا جھٹکا لگا، اور میرا خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ اُس لمحے میں نے خود سے پوچھا، میں اپنے ساتھ یہ سب کیوں کر رہی ہوں؟
یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اوور تھنکنگ کو ختم کروں گی۔
اپنے تجربے پر نظر ڈالوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میرے دماغ نے جتنے بھی خوف پیدا کیے، اُن میں سے کوئی بھی حقیقت نہیں بنے۔ پھر بھی میں نے اُن کا درد ایسے جھیلا جیسے وہ سچ ہوں۔ اس نے مجھے یہ سکھایا کہ رومینیشن اور ریفلیکشن میں فرق ہے — ریفلیکشن ایک مثبت سوچ ہے جو ہمیں بڑھنے میں مدد دیتی ہے، جبکہ رومینیشن صرف ہمارا سکون اور صحت چھین لیتی ہے۔ جتنا ہم اسے طاقت دیتے ہیں، یہ اتنی ہی مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ مگر جیسے ہی ہم سیکھ لیتے ہیں کہ اوور تھنکنگ کو کیسے روکا جائے، زندگی آہستہ آہستہ ہلکی ہونے لگتی ہے۔
ایک اُمید بھرا پیغام
اگر آپ بھی اس کیفیت سے گزر رہی ہیں تو یاد رکھیے: ایسے خیالات آنا آپ کو کمزور نہیں بناتا — یہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ انسان ہیں۔ تقریباً ہر شخص اپنی زندگی میں کسی نہ کسی وقت اس جدوجہد سے گزرتا ہے۔ فرق اُس وقت آتا ہے جب ہم ان خیالات کو پہچاننا سیکھتے ہیں، اُنہیں چیلنج کرتے ہیں، اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ آپ اُن خیالات سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں جو آپ کا ذہن بنا لیتا ہے۔
مدد اور سہارا
اگر رومینیشن بہت زیادہ ہو جائے اور روزمرہ کی زندگی پر اثر ڈالنے لگے، تو مدد مانگنا بالکل ٹھیک ہے۔ کسی قابلِ اعتماد دوست، خاندان کے فرد، یا ماہرِ نفسیات سے بات کیجیے۔ بعض اوقات صرف دل کی بات زبان سے نکال دینا ہی بوجھ کو ہلکا کر دیتا ہے، جو ہم خاموشی میں اٹھائے پھرتے ہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے منفی خیالات
اسلام میں خیالات کو ایمان اور باطنی سکون کا ایک اہم حصہ سمجھا گیا ہے۔ نبی ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ اللہ تعالیٰ انسان کو اُس کے دل کے وسوسوں پر اس وقت تک مؤاخذہ نہیں کرتا جب تک وہ اُن پر عمل نہ کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تکلیف دہ کہانیاں یا خوفناک منظر جو ہمارا دماغ بناتا ہے، گناہ نہیں ہیں — یہ صرف ذہنی دھوکے ہیں، اور بعض اوقات شیطان کے وسوسے بھی ہو سکتے ہیں، جن کا مقصد ہمارے دل کو بے سکون کرنا ہوتا ہے۔
اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایسے خیالات سے لڑنے کا بہترین طریقہ ذکرِ الٰہی ہے۔ قرآن کی تلاوت، دعا، اذکار اور اللہ سے پناہ مانگنا دل کے اضطراب کو پرسکون کرتا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے
“یقیناً اللہ کے ذکر میں ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے” (سورۃ الرعد 13:28)۔
جب ہم رومینیشن میں پھنس جائیں تو نماز، دعا اور ذکر دل کے لیے ایک ڈھال بن جاتے ہیں، جو منفی خیالات کے اس لامتناہی چکر کو توڑ دیتے ہیں۔
اسلام کی ایک اور خوبصورت تعلیم توکّل ہے — یعنی اللہ پر بھروسہ۔ اکثر رومینیشن ماضی کے دکھ یا مستقبل کے خوف سے جنم لیتی ہے، مگر جب ہم یاد رکھتے ہیں کہ سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے، اور وہی بہترین منصوبہ ساز ہے، تو دل آہستہ آہستہ چھوڑنا سیکھ لیتا ہے۔
ایک سوال آپ کے لیے
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کا ذہن ایسی تکلیف دہ کہانیاں بنا لیتا ہے جو حقیقت میں کبھی ہوئیں ہی نہیں؟ آپ نے اُن سے کیسے نمٹا؟ میں آپ کے خیالات اور تجربات جاننا چاہوں گی — اپنی رائے نیچے کمنٹ میں ضرور لکھیں کیونکہ جب ہم اپنی بات بانٹتے ہیں، تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اس جدوجہد میں اکیلے نہیں ہیں۔
رابطے میں رہیے
کبھی کبھی چند سچے الفاظ بھی ہمیں کم اکیلا محسوس کرا دیتے ہیں۔ اگر آپ کو زندگی کی سچائیوں اور احساسات پر مبنی تحریریں پسند ہیں، تو میرے واٹس ایپ چینل سے جُڑیں تاکہ نئی تحریروں اور خیالات سے باخبر رہ سکیں۔


Mre dil ke baten or sochen
bus yahi socho se to nikalna hy tak hum jee sake hamre andar khof zyda hy islia pareshani mai hamesha jeete hy.