خط لکھنے کا کھویا ہوا فن۔
ایک دور تھا جب محبت اور تڑپ کاغذ کے ذریعے سفر کرتی تھیں۔ جذبات لفافوں میں بند ہوکر ڈاک کے ذریعے پہنچتے اور کانپتے ہاتھوں سے کھولے جاتے تھے۔ لوگ ہر لفظ کو محسوس کرتے، اور لکھائی کا ہر خم، ہر لکیر اپنائیت، خیال اور سچائی سے مہکتی تھی۔
جلد باز پیغامات اور ہر لمحہ بجتی گھنٹیوں سے پہلے ایک خوبصورت سی خاموشی ہوا کرتی تھی. ایک خط کے انتظار کی میٹھی لذت، اسے آہستگی سے کھولنے کا لطف، اور انہی جملوں کو بار بار پڑھنے کا وہ لطف… یہاں تک کہ وہ دل کی دھڑکن کا حصہ لگنے لگتے۔
ہماری سادہ زندگی، سادہ لفظ، سادہ رشتے، سادہ رہن سہن اور سادہ تحریریں بدل کر جدید زندگی، سیدھی مگر کھری بات کر نے و الی زبان، مفاد پر مبنی رشتوں، ایجادات پر انحصار اور روابط کے مجازی طریقوں میں ڈھل چکی ہیں۔
سب کچھ بدل گیا ہے۔ کچھ کھو کر ہم نے بہت کچھ پایا بھی ہے۔ مگر جو چیز ہم نے کھو دی، اُن میں اپنے چاہنے والوں کو خط لکھنے کی عادت بھی شامل ہے. جو اب گھٹ کر بس اتنی رہ گئی ہے کہ ہم مجازی دنیا میں خوبصورت خط، استعفیٰ کے نمونے یا درخواستِ ملازمت کے خطوط تلاش کرتے پھرتے ہیں۔
خط نگاری کی تاریخ
خط لکھنے کا فن صدیوں تک رابطے کا بنیادی ذریعہ رہا ہے، جس نے لوگوں کو فاصلوں اور نسلوں کے پار جوڑے رکھا۔ کبھی لکھے ہوئے پیغام قاصدوں کے ذریعے پہنچائے جاتے تھے، اور کبھی چاہنے والوں کے درمیان بڑے سلیقے سے لکھے گئے خطوط کا تبادلہ ہوتا تھا۔ خط ایسے جذبات، معلومات اور ارادے بیان کرتے تھے جنہیں کوئی اور ذریعہ اس خوبی سے نہیں پہنچا سکتا تھا۔
وقت کے ساتھ انداز اور طریقے بدلتے گئے—ذاتی رقعوں سے لے کر باضابطہ خطوط تک، اور پھر سرکاری یا پیشہ ورانہ نوعیت کے خطوط جیسے ملازمت کے لیے درخواستیں اور استعفے۔ جدید ٹیکنالوجی اور فوری پیغامات کے باوجود، خطوں کی تاریخ ہمیں اس محبت، خیال اور انسانی ربط کی یاد دلاتی ہے جو ہر لکھے ہوئے لفظ میں پوشیدہ ہوا کرتا تھا۔
خط لکھنے کی تعلیم دینے کی روایت
اُن دنوں والدین میں ایک خوبصورت روایت پائی جاتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو خط لکھنا سکھاتے تھے۔ یہ صرف لکھنے سیکھنے تک محدود نہیں ہوتا تھا، بلکہ لفظوں کے ذریعے جذبات کا اظہار کرنا، ادب و احترام کا طریقہ اپنانا، جذباتی رشتہ قائم کرنا اور تعلقات کو مضبوطی سے نبھانا بھی سکھایا جاتا تھا۔
مجھے آج بھی یاد ہے، میں دوسری جماعت میں تھی جب میری والدہ نے پیار سے اصرار کیا کہ میں اپنے ماموں کو خط لکھوں۔ ابتدا میں مجھے کچھ جھجھک محسوس ہوئی، مگر جیسے ہی میں نے لکھنا شروع کیا تو مجھے بے حد جوش محسوس ہوا۔ میں نے بڑے ذوق سے ہر لفظ سوچ کر لکھا اور پورے دل سے بڑی محبت کے ساتھ خط تیار کیا۔ وہ کاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا، مگر اس میں میری ساری محبت اور معصومیت سمٹی ہوئی تھی۔
کاش وہ خط آج بھی میرے پاس ہوتا، تو میں دیکھ پاتی کہ اُس میں میں نے کتنی معصوم غلطیاں کی ہوں گی۔
ہر لفظ کے پیچھے محنت اور جذبہ
سوچئے، آج کے دور میں بھی جب ہم کوئی مختصر سا پیغام بھیجتے ہیں تو اسے دو تین بار پڑھ کر ٹھیک کرتے ہیں کہ کہیں کوئی غلطی نہ رہ جائے۔ تو ذرا تصور کیجئے، ایک خط لکھنے میں کتنی محنت لگتی ہوگی؟ کتنے کاغذ ضائع ہوتے ہوں گے اُس آخری، محبت سے بھرپور خط تک پہنچنے میں، اور مناسب لفظ چننے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہوگا۔
جلد باز پیغام یا برقی خط کے برعکس، خط لکھنے میں وقت لگتا تھا۔ موزوں کاغذ کے انتخاب سے لے کر لفظوں کو سلیقے سے صفحے پر اُتارنے تک, ہر مرحلے کی اپنی اہمیت تھی۔ ہاتھ سے لکھا ہوا خط صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں ہوتا تھا، بلکہ لکھنے والے کی شخصیت کا عکس بھی ہوتا تھا۔ لکھائی کا جھکاؤ، سیاہی کے دھبّے، کاغذ کی خوشبو—یہ سب باریک نشانیاں وہ جذبات لے کر آتی تھیں جو کسی اِن باکس میں لکھا ہوا ایک سادہ سا ’’سلام‘‘ کبھی نہیں پہنچا سکتا۔
انتظار کے لمحے سب سے کٹھن ہوتے ہیں
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ بے شمار شاعروں نے خطوں پر نغمے اور شاعری لکھی، کیونکہ خطوط اپنے اندر گہرے جذبات سمیٹے ہوتے تھے۔ انہیں لکھنے میں شاید چند گھنٹے لگتے تھے، مگر جواب کے انتظار میں… بس انتظار، انتظار، اور صرف انتظار ہی رہ جاتا تھا۔
برِّصغیر اور مغرب دونوں ثقافتوں میں خطوط کے بارے میں بے شمار خوبصورت نغمے موجود ہیں۔ میں اپنے چند پسندیدہ اشعار ضرور آپ کے ساتھ شیئر کروں گی
لکھے جو خط تجھے
وہ تیری یاد میں
ہزاروں رنگ کے
نظارے بن گئے
سویراؔ جب ہوا
تو پھول بن گئے
جو رات آئی تو
ستارے بن گئے
…لکھے جو خط تجھے
ایک اور گانے کی چند لائنیں جو انگلش سونگ ہیں
ٹھہریے! او ہاں، ذرا رُکیے، مسٹر پوسٹ مین
(رُکیے!) رُکیے، مسٹر پوسٹ مین
مہربانی کریں، مسٹر پوسٹ مین، ذرا دیکھیے
کیا کوئی خط ہے، کوئی خط میرے لیے؟
میں بہت عرصے سے انتظار کر رہی ہوں
جب سے اُس لڑکے کی خبر نہیں ملی۔
آج تو کوئی پیغام ضرور ہونا چاہیے
…میرے محبوب کا، جو مجھ سے بہت دُور ہے
افسوس! نہ اب کوئی ڈاکیا(پوسٹ مین) رہا، نہ ہی وہ لیٹر بکس جس میں خط ڈالا جاتا تھا
پہلے زمانے میں خط فوراً نہیں پہنچتا تھا۔ منزل تک پہنچنے میں کئی دن، اور کبھی کبھی ہفتے لگ جاتے تھے۔ مگر کیا وہ انتظار بھی لطف کا حصہ نہیں تھا؟ وہ بے چینی، وہ تجسّس، وہ خط کھولنے کی خوشی, یہ سب ایک نہایت ذاتی اور دل سے جڑی ہوئی کیفیت تھی۔
آج سب کچھ پل بھر میں مل جاتا ہے، لیکن اسی تیزی میں ہم اُمنگ، تڑپ اور قدر کے اُس جادو سے محروم ہو گئے ہیں۔
خط دل کا ایک ٹکڑا ہوا کرتا تھا
جب لوگ خط لکھتے تھے تو اپنا دل اُن میں اُتار دیتے تھے۔ چاہے وہ بے اظہار جذبات سے بھرا ہوا محبت نامہ ہوتا، کسی سپاہی کا اپنے گھر والوں کے نام خط، دور بیاہی گئی بہن کا اپنے بہن بھائیوں اور والدین کو لکھا پیغام، یا بچپن کے دوستوں کے درمیان بھیجا جانے والا سادہ سا نوٹ, ہر لفظ کی اہمیت ہوتی تھی۔ خط میں یہ طاقت ہوتی تھی کہ وہ دُور بیٹھے لوگوں کو بھی ہنسا دے، رُلا دے، اور محبت کا احساس دلا دے۔

ڈیجیٹل دور: تیز رفتار، مگر بے اثر
ٹیکنالوجی نے رابطے کو آسان تو بنا دیا ہے، مگر کیا اس نے اسے زیادہ معنی خیز بھی بنایا ہے؟ خط سنبھال کر رکھا جا سکتا تھا، بارہا پڑھا جاتا تھا، اور برسوں تک سنبھال کر رکھا جاتا تھا، جبکہ زیادہ تر برقی پیغام چند ہی دنوں میں بھلا دیے جاتے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے پرانے پیغامات دیکھتے ہوئے وہی گرمی محسوس کی ہے جو ایک پرانا خط ہاتھ میں لینے سے محسوس ہوتی ہے؟ غالباً نہیں۔ برقی رابطوں میں محنت کی کمی نے لفظوں کی قدر اور وزن کم کر دیا ہے۔
ذرا پرانے وقتوں کے ایک نئے شادی شدہ جوڑے کا تصور کیجیے۔
شوہر روزگار کی خاطر گھر سے دور جانا پڑتا تھا۔ ایک بار چلے جانے کے بعد، اگر رابطہ رہتا بھی تو مہینے میں محض ایک خط کے ذریعے۔ نہ آواز کے پیغامات، نہ روبرو بات، نہ لمبی بات چیت کے ذرائع, ایک دوسرے کو دیکھنا اور سننا صرف اُن ہاتھ سے لکھے گئے خطوط کے وسیلے سے ہوتا تھا۔
مہینوں بعد جب وہ لوٹ کر گھر آتا، تو اُن کے رشتے میں مٹھاس بھی ہوتی اور تازگی بھی۔ اُن کی نظریں ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر اُکتاتی نہیں تھیں، نہ کان ایک دوسرے کی آواز سن سن کر تھکتے تھے۔ اُن کے رشتے میں وہی خوبصورت سا ادب، حیا اور تڑپ باقی رہتی تھی۔ وہ ایک دوسرے سے یوں جلدی نہیں اُکتاتے تھے۔
آج کی ایجادات نے ہمیں بظاہر قریب تو کر دیا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ انہی نے ہمیں ایک دوسرے سے دور بھی کر دیا ہے۔ ہم اتنا بات کرتے ہیں، پھر بھی جانے کیوں اب بات کرنے کا دل نہیں رہتا۔
ان نئی سہولتوں نے صرف آسانی ہی نہیں دی، لوگوں کے درمیان جھگڑے بھی بڑھا دیے ہیں
“میں نے تمہیں تین بار فون کیا، تم نے اُٹھایا کیوں نہیں؟”
“تم نے میرا پیغام دیکھ لیا، جواب کیوں نہیں دیا؟”
“تم تو ایک گھنٹہ پہلے تک موجود تھیں—پھر جواب کیوں نہ دیا؟”
آج انہی معمولی باتوں نے بے شمار غلط فہمیوں کی جڑیں مضبوط کر دی ہیں۔
کیا ہم اسے واپس لا سکتے ہیں؟
کاش کہ میں وہ دن واپس لا سکتی، مگر لوگوں کے رویّے بدل چکے ہیں۔
آج خط لکھنا زیادہ تر نصابی حد تک رہ گیا ہے، جہاں طلبہ اسکولوں اور کالجوں میں صرف طریقۂ تحریر سیکھتے ہیں، یا پھر سرکاری و پیشہ ورانہ ضرورت تک محدود ہے, جیسے استعفے یا ملازمت کے لیے درخواستیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اب لوگ اپنے خطوط بھی خود نہیں لکھتے، اے آئی کا استعمال بھی کرتے ہیں، گوگل پر لکھو اور چند سیکنڈز میں تیار شدہ خط حاصل کر لو۔۔ مگر کیا کیا جائے… رشتے تو تیار شدہ نہیں ہوا کرتے۔
اگرچہ نئی سہولتیں ہماری زندگی کا حصہ رہیں گی، لیکن خط لکھنے کی خوبصورتی ختم ہونا ضروری نہیں۔
کسی خاص موقع پر, چاہے سالگرہ ہو، شادی کی سالگرہ، یا پھر اُس لمحے جب دل بھرا بھرا سا محسوس ہو، چند خلوص بھری سطریں اپنے ہاتھوں سے لکھ کر دیکھیں۔ نقل شدہ پیغام یا تیار شدہ جملے مت بھیجیے، اپنے لفظوں کو ہی اپنے جذبات کا سفیر بننے دیجیے۔
سوچیے، جب آپ کا پیارا وہ خط کھولے گا، آپ کی لکھائی کے ہر خم میں آپ کا احساس پڑھے گا، سیاہی میں بسی آپ کے دل کی گرمی محسوس کرے گا, تو کیسا لطف، کیسی خوشی نصیب ہوگی۔ کاغذ کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا اتنی محبت سمیٹ سکتا ہے، جتنی محبت ہزاروں ڈیجیٹل پیغامات بھی نہیں دے سکتے۔
کیونکہ کبھی کبھی، ہاتھ سے لکھا ایک چھوٹا سا خط بھی وہ سب کچھ کہہ جاتا ہے جو کوئی اسکرین کبھی نہیں کہہ سکتی۔
ہوسکتا ہے ہم وہ پرانے دن تو لوٹا نہ پائیں، مگر اُن کی رُوح کو زندہ ضرور رکھ سکتے ہیں۔
اگلی بار جب دل میں کوئی بات ہو ,کاغذ پر لکھیں۔
اخلاص سے لپیٹ دیں، اور اپنے لفظوں کو اُسی طرح سفر کرنے دیں جیسے دل ایک زمانے میں کرتے تھے ,آہستہ، نرمی سے، اور محبت کے ساتھ۔

