تاریخ پر مبنی جشن بمقابلہ روزمرہ کی محبت
کیا آپ وہ شخص ہیں جو ہمیشہ مقررہ تاریخوں کے مطابق تقریبات مناتے ہیں، یا پھر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو پورا سال ایک جیسے رہتے ہیں—جیسے خراب دودھ—اور اچانک ایک دن آپ پنیر بن جاتے ہیں؟ یعنی، آپ میں توانائی آتی ہے، آپ خود کے لیے ایک تقریب تخلیق کرتے ہیں اور اس کا لطف اٹھاتے ہیں۔
زیادہ تر لوگ کیلنڈر کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، جیسے سالگرہ، شادی کی سالگرہ، ماں کا دن، والد کا دن اور بے شمار دیگر—بلا بلا بلا۔
جذبات کی سرخ لہر
اسی کیلنڈر میں ایک دن ایسا بھی ہے—ویلنٹائن ڈے، جو ہر سال 14 فروری کو منایا جاتا ہے، مکمل طور پر سرخ ربن میں لپٹا ہوتا ہے۔ ہر چیز سرخ نظر آتی ہے: جذبات کی لہر، توقعات، اور روایات، جیسے ویلنٹائن کارڈز، پھول، چاکلیٹ کا تبادلہ اور یہاں تک کہ خصوصی ویلنٹائن ڈے کے ملبوسات، نیل پالش، رنگ اور ڈیزائن جو اس دن کے جذبات سے میل کھاتے ہیں۔
ہر جگہ سرخی چھائی ہوتی ہے، اور میرے خون کا سرخ رنگ بھی حیران و پریشان ہو کر پوچھتا ہے، “یہ سب میرے خلاف کیوں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟ لوگ آخر اس دن کا جشن کیوں منا رہے ہیں؟ اس دن میں ایسی خاص بات کیا ہے؟”
یقین کریں، اگر میں ایک سروے کروں اور لوگوں سے پوچھوں کہ اصل میں ویلنٹائن ڈے کا مطلب کیا ہے، تو زیادہ تر لوگ صحیح جواب دینے میں مشکل محسوس کریں گے۔ چلیے، میں آپ کو اس کی تاریخ کے بارے میں بتاتی ہوں:
ویلنٹائن ڈے کی تاریخ
ویلنٹائن ڈے ایک شخص، سینٹ ویلنٹائن کی کہانی سے آتا ہے جو روم میں بہت عرصہ پہلے رہتے تھے۔ اس وقت کے حکمران، شہنشاہ کلاڈئیس نے فوجیوں پر شادی کرنے کی پابندی لگا دی تھی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ غیر شادی شدہ مرد بہتر سپاہی بنتے ہیں۔ لیکن سینٹ ویلنٹائن خفیہ طور پر جوڑوں کی شادیاں کرواتے تھے۔ جب بادشاہ کو پتہ چلا تو اس نے ویلنٹائن کو جیل میں ڈال دیا۔
کہا جاتا ہے کہ جیل میں رہتے ہوئے، ویلنٹائن نے جیلر کی نابینا بیٹی کو شفا دی اور اسے “فرام یور ویلنٹائن” کے دستخط کے ساتھ ایک خط بھی بھیجا۔ 14 فروری کو انہیں سزائے موت دے دی گئی۔ وقت کے ساتھ، لوگوں نے اس دن کو محبت اور اپنائیت کے اظہار کے طور پر منانا شروع کر دیا، اور آج یہ دن دنیا بھر میں تحائف، پھول اور کارڈز کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
ایک لڑکی جو تاریخ سے بے خبر باہر نکلی
چند سال پہلے، میں ایک خواب اور خواہش کے ساتھ کہ میں ڈاکٹر بنوں گی، اپنی گیارہویں جماعت کے نتائج کی بنیاد پر آغا خان میڈیکل کالج میں اپنے دستاویزات جمع کرانے جا رہی تھی۔ لیکن ایک چھوٹا سا مسئلہ تھا: مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ آج تاریخ کیا ہے!
میں نے اپنی دوستوں کے ساتھ کالج میں ملاقات طے کی تھی، اور وہاں سے ہم اکٹھے آغا خان میڈیکل کالج جانے والے تھے۔ میں نے ایک مہذب اور شائستہ لباس منتخب کیا، جو نرم پیچ اورنج رنگ کا تھا۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔!
اُس وقت ایک بالی ووڈ گانا “میرے نصیب میں تُو ہے کہ نہیں” بہت مشہور تھا۔ اس گانے میں ماڈل نے ایک سرخ بلاؤز پہنا تھا جس پر دل کا ڈیزائن تھا۔ میری بہن نے اس سے متاثر ہو کر اپنے لباس پر دل کا پیچ لگایا، اور میں نے وہی پہن لیا۔ اس وقت تو مجھے یہ بس ایک کیوٹ اور فیشن ایبل انتخاب لگا، مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کہ میں ایک بڑی مشکل میں پڑنے والی ہوں۔
ناقابلِ فراموش ویلنٹائن ڈے واقعہ
جیسے ہی میں کالج میں داخل ہوئی، میں سن ہو گئی۔ ہر لڑکی کے ناخنوں پر سرخ نیل پالش تھی، کچھ کے ہاتھوں میں سرخ غبارے تھے، کچھ تحائف کا تبادلہ کر رہی تھیں، اور کالج کی گفٹ شاپ تو کسی میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ چند لمحوں میں ہی مجھے احساس ہو گیا… “او خدایا! دا سا دی؟” (یا اللہ! یہ کیا ہو رہا ہے؟)
ہاں، وہ 14 فروری تھا—ویلنٹائن ڈے—مگر میرے لیے وہ بس ایک عام دن تھا۔ اور مسئلہ تب بڑھا جب پرنسپل کو پتہ چلا کہ زیادہ تر لڑکیاں یونیفارم میں نہیں آئیں۔ وہ غصے میں آگ بگولا ہو گئیں اور گیٹ کیپر کو حکم دیا کہ گیٹ بند کر دو—اب کوئی باہر نہیں جا سکتا۔
میرا لباس، جو حادثاتی طور پر ویلنٹائن ڈے کے رنگ میں رنگا ہوا تھا، مجھے محبت میں گرفتار طلبہ و طالبات سے بھرے کالج میں قید کر چکا تھا۔ پرنسپل کیا سوچیں گی؟ کہیں مجھے بھی ان “باغیوں” میں شامل نہ سمجھ لیا جائے جو اس ممنوعہ دن کا جشن منا رہے تھے؟
جب کوئی راستہ نہ بچا تو میں نے اور میری دوستوں نے سیدھا پرنسپل کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی ہم دفتر کی طرف بڑھے، ایک دوست نے اونچی بھنویں چڑھا کر میری طرف دیکھا اور کہا ۔۔۔”
“اپنا یہ دل تو چھپا لو۔” میں نے فوراً دوپٹہ اپنے اوپر لپیٹ لیا، جیسے میں پرنسپل کے آفس میں 100 نوافل پڑھنے جا رہی ہوں۔ ہم نے اپنی معصوم ترین آواز میں کہا، “میڈم، ہم تو صرف اپنے ڈاکومنٹس جمع کرانے آئے تھے۔ ہمیں بالکل نہیں پتہ تھا کہ آج ویلنٹائن ڈے ہے۔”
اور یوں، کچھ لوگ—جیسے میں—دنیا میں ایسے ہی گزارا کرتے ہیں، جہاں تاریخیں، ٹرینڈز اور تہوار سر کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔ کون جانتا تھا کہ ایک سادہ سا لباس انتخاب مجھے اس دن کی سب سے عجیب یادگار دن دے گا؟ 😅
ویسے، ایک بات بتاؤں؟ نہ ہم نے اس دن ویلنٹائن ڈے منایا، اور نہ ہی ہمیں آغا خان میں داخلہ ملا۔۔
ویلنٹائن ڈے: نوجوانوں بمقابلہ شادی شدہ جوڑے
ویلنٹائن ڈے وائی فائی سگنل کی طرح ہے
نوجوانوں اور غیر شادی شدہ افراد کو پورے سگنلز ملتے ہیں، جبکہ شادی شدہ جوڑے بمشکل کمزور کنکشن حاصل کر پاتے ہیں! نوجوان محبت کے پرستار اس دن کے لیے ہفتوں پہلے تیاری کرتے ہیں، طویل کیپشن لکھتے ہیں، اور تحائف کا تبادلہ ایسے کرتے ہیں جیسے آج آخری دن ہو۔
دوسری طرف، شادی شدہ جوڑے بس ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں، “اوہ، آج ویلنٹائن ہے؟ چلو پیزا آرڈر کر لیں؟” ان کے لیے رومانس کی جگہ بجلی کے بل اور راشن کی فہرستوں نے لے لی ہوتی ہے۔ “میرا ویلنٹائن مجھے کیا دے گا؟” کا جوش “آج کھانے میں کیا بنے گا؟” میں بدل چکا ہوتا ہے۔
محبت کی حقیقی پہچان
میرے لیے، محبت کے اظہار کے لیے کوئی ایک خاص دن مقرر کرنا بے معنی ہے، خاص طور پر ویلنٹائن ڈے جیسا دن۔ محبت کوئی محدود جذبہ نہیں جو صرف ایک دن کے لیے ہو، بلکہ یہ تو زندگی بھر کا احساس ہے۔ ہماری ثقافت اور دین میں محبت کو تحائف اور بڑی تقریبات سے زیادہ خیال، احترام اور چھوٹے چھوٹے روزمرہ کے اشاروں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، “محبت چھپائی نہیں جا سکتی اور دکھائی نہیں جا سکتی”
لیکن معاشرہ اس تصور کو فروغ دیتا ہے کہ محبت کا اظہار مغربی انداز میں کرنا ضروری ہے، جیسے پھول اور چاکلیٹ، گویا ایک دن کی بڑی تقریب سچی محبت کا معیار ہے۔ لیکن اصل محبت کسی تاریخ یا رسم و رواج کی محتاج نہیں، بلکہ یہ تو خلوص، استقامت اور ان لمحات میں پنہاں ہے جو کسی کیلنڈر کے محتاج نہیں ہوتے۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے، “محبت رواج نہیں، اظہار چاہتی ہے۔”